اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سینیٹ نے اسلام آباد میں بلااجازت جلسے پر قید کی سزا کا بل منظور کرلیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد میں مخصوص جگہ پر پُرامن جلسے جلوس کے انعقاد کا بل پیش کیا گیا، سینیٹر عرفان صدیقی نے بل پیش کیا جس کی پی ٹی آئی کی جانب سے مخالفت کی گئی۔سینیٹر علی ظفر نے بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں ایک جلسہ ہونے جارہا ہے، اسے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم اس چیز کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، آپ جہاں چاہیں جلسہ کریں، ہم تو انہیں سہولت دے رہے ہیں، ہمارا اور کوئی مقصد نہیں، ہم چاہتے ہیں لاکھوں لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں۔
اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ یہ رولز اس ہاؤس نے بنائے ہیں، جب سے یہ ہاؤس معرض وجود میں آیا تو رولز ریلکس ہوتے ہیں۔
بعد ازاں قائد حزب اختلاف سینیٹ شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کررہے ہیں، یہ قانون آپ کے گلے پڑے گا، جب کرکٹ ٹیمیں آتی ہیں، تب بھی شہر کو محصور کردیا جاتا ہے، اس بل پر آپ کی بدنیتی واضح ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بھی جلسہ کر لے، میں انہیں چیلنج کرتا ہوں، یہ قانون محض پی ٹی آئی کے جلسے کو نشانہ بنانے کیلئے بنایا گیا ہے، وزیر قانون دن دیہاڑے کیسے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ منی بل یا ججز کی تعداد میں اضافے کا بل نجی ممبر نہیں پیش کر سکتا، کیسے ایوان کو استعمال کرتے ہوئے ججز کی تعداد میں اضافے کا نجی بل پیش ہوا، ججز کی تعداد میں اضافے کا بل صرف حکومت پیش کر سکتی ہے۔
شبلی فراز کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ججز کی تعداد میں اضافہ کے بل پر قومی اسمبلی میں شرمندگی کا سامنا ہوا، سینیٹ سے یہ نجی بل پیش کرنا درست نہیں تھا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ جس دن یہ بل آیا تھا، اس دن بھی ہاؤس پر بحث ہوئی تھی۔
اسی کے ساتھ سینیٹر عرفان صدیقی کی طرف سے پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کی تحریک پیش کردی گئی، ایوان نے تحریک کثرتِ رائے سے منظور کر لی۔
بعد ازاں اسلام آباد میں امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔
قبل ازیں سینیٹ اجلاس کے آغاز پر سینیٹر مسرور احسن نے دو روز قبل سینیٹ قائمہ کمیٹی میں سیف اللہ ابڑو اور شہادت اعوان کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی معزز ممبر کی دوسرا ممبر بے عزتی کرے، اور اخبار کی زینت بنے، جس معزز رکن نے یہ کیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی رکن کی ہاؤس میں کھڑے ہو کر مذمت کرنی چاہیے، وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات پر چشم پوشی نہ کریں، ورنہ معاملات دور تک جائیں گے، میں بطور رکن ایوان اس کی بھر پور مذمت کرتا ہوں۔
اس پر تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اس معاملے کی تحقیقات کروائیں، اس ہاؤس کی کمیٹی بنائیں جو اس معاملے کی تحقیقات کرے، اگر میں غلط ثابت ہوا تو جا کر معافی مانگوں گا، اگر غلطی ثابت نہ ہوئی تو جن ارکان نے ہاؤس میں مذمت کی مخالفت کی، وہ پھر معافی مانگیں گے۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ اس ہاؤس کا بڑا احترام ہے، قومی اسمبلی کے رکن یہاں بیٹھ کر رہنمائی لیتے تھے، اگر ہم معاملات کو بڑھائیں گے، تو آگے بڑھتے جائیں گے۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرۃ العین مری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے معزز رکن سے جو ہوا، اس کے بعد پیپلز پارٹی کا مؤقف نہ سننا مناسب نہیں۔
بعد ازاں سابق وفاقی وزیر شبلی فراز نے بتایا کہ اس بحث کو اب ختم ہو جانا چاہیے، کمیٹی تو بننی چاہیے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ میں دو واقعات قومی اسمبلی میں بھی ہوئے، ہم نئی چیزیں کیوں کریں، یہ معاملہ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیں، جو رول کہتا ہے۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بکواس میرے لیے کی گئی ہے، آپ وہاں کمیٹی میں موجود تھے، ایک شخص جسے اپنے کردار کا پتا ہے، یہ بدبودار شخص جیک آباد، لاڑکانہ میں بچے ڈھونڈتا ہے، یہ بدتمیز آدمی ہے، میری بے عزتی ہوئی ہے، یہ آدمی ایجنٹ اور ٹاؤٹ ہے۔
اس موقع پر سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا تو اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ نے چیمبر میں ہمیں بلایا تھا، لیڈر آف اپوزیشن اور ہم نے کوشش کی ہے دونوں بھائیوں کو گلے ملوانا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو میں صلح کرادی گئی، دونوں ممبران ایک دوسرے سے گلے ملے۔
اس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ تمام ممبران کو بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے، تمام الفاظ کو حذف کرتے ہیں۔