اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)بانی پی ٹی آئی کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا یا نہیں،اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت سے واضح موقف طلب کرلیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا ممکنہ ملٹری ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی،نمائندہ وزارت دفاع نے کہاکہ میں نے فیلڈ جنرل کورٹ میں 50سے زائد کیسز کئے ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیسے سویلینز کو ملٹری کورٹس میں لے جاتے ہیں؟نمائندہ وزارت دفاع نے کہاکہ متعلقہ مجسٹریٹ کو ملٹری اتھارٹی آگاہ کرتی ہے،آرمی ایکٹ ایک سپیشل قانون ہے،سیکشن 2ون ڈی کے تحت سویلین کا بھی ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ملٹری حراست میں دینا ہو تو طریقہ کیا ہوتا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزارت دفاع کے پاس آج تک ملٹری ٹرائل کی کوئی اطلاع نہیں،وزارت دفاع کی طرف سے بیان دے رہا ہوں کہ ایسی کوئی چیز ابھی نہیں آئی، اگر کوئی درخواست آتی ہے تو پھر بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی درخواست قبل ازوقت ہے؟آپ کی درخواست پر میں نے نوٹس جاری نہیں کیا بلکہ بیان طلب کیاتھا،عدالت نے کہاکہ اگر جواب آتا کہ ملٹری ٹرائل ہونے جارہا ہے تو پھر بات آگے بڑھتی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہم آج ایک الگ دور میں ہیں، آج کے دور میں الفاظ کی جنگ ہوتی ہے،عدالت آپ کی بے چینی سمجھتی ہے، ہماری حدود کو بھی سمجھیں،میرے پاس اس کیس میں آگے بڑھنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو جیسے حراست میں رکھا گیا سب کو معلوم ہے،جس طرح آدھی رات تک ٹرائل چلا کر سزائیں دی گئیں وہ آپ کے سامنے ہے،عدالت نے کہاکہ اگر تو ملٹری ٹرائل سے پہلے بانی کو نوٹس دیا جاتا ہے تو پھر یہ کیس نمٹا دیتے ہیں،اگرآپ کہتے ہیں کہ بغیر نوٹس آسمانی بجلی کی طرح آنا ہے تو پھر ایسے نہیں ہوگا، نیب قانون کو سپریم کورٹ نے ڈریکونین قراردیا لیکن اس میں بھی طریقہ کار موجود ہے،جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے سول عدالت چارج فریم کریگی،عدالت نے کہاکہ ٹرائل کورٹ اگر کہے کہ کیس ملٹری کورٹ کو بھیجنا ہے تو نوٹس دیکر بھیجا جا سکتا ہے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں آ رہا، عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو وقت دیتا ہوں ، اس سے متعلق ہدایات لے کر آ جائیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے واضح بیان دینے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے وقت مانگ لیا۔