یہ ایک پاکستانی دیہاتی اسکول کا منظر ہے۔پہاڑی نالے کے کنارے نسبتاً اونچی،لیکن ہموار زمین پر دور دور تک ننھے منے ،چھوٹے بڑے ،گورے چٹے بچے قطاردرقطار بیٹھے ہیں۔
یہ ایک پاکستانی دیہاتی اسکول کا منظر ہے۔پہاڑی نالے کے کنارے نسبتاً اونچی،لیکن ہموار زمین پر دور دور تک ننھے منے ،چھوٹے بڑے ،گورے چٹے بچے قطاردرقطار بیٹھے ہیں۔سیاہ لباس میں لپٹے یہ ہیرے اپنے اپنے گھر وں سے بوری کے ٹکڑے ساتھ لے کر آئے ہیں۔جنہیں بوری کا ٹکڑا میسر نہ تھا وہ اپنے اپنے پتھر پر جلوہ افروز ہیں ۔
یہ لوگ گزشتہ روز چھٹی سے قبل اپنے اپنے پتھروں پہ نشان لگا کر جھاڑیوں میں چھپا گئے تھے،اس خدشے کے پیش نظر کے اگلے روز کوئی اور ان کی ”سیٹ “پر قبضہ نہ کرلے۔اسکول میں کلاسیں شروع ہو چکی ہیں۔بچے حسب معمول اپنے اپنے بوسیدہ تھیلے کھول کر بیٹھ چکے ہیں۔شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔بچے ایک دوسرے کے کان کھینچ رہے ہیں۔
کچھ کرکٹ کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بعض منچلے ماسٹر جی کی کرسی کے پائے کے ساتھ چمٹے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ابھی اونگھ رہے ہیں،چند لمحے اور گزرے تو وہ سوجائیں گے۔کچھ دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر نعرے لگانے میں مشغول ہیں۔
دس بجنے میں کچھ منٹ باقی ہیں۔اچانک کلاس میں سناٹا طاری ہوجاتا ہے۔درمیانی عمر کے ماسٹر صاحب ہاتھ میں”مولا بخش “تھامے کرسی کی جانب بڑھتے ہیں۔
ان کے چہرے سے تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہیں۔وہ بہ مشکل اپنا بھاری بھر کم جسم ٹوٹی کرسی پر ڈالتے ہیں ۔کلاس میں شورتھم چکا ہے ۔اب کھسر پھسر ہورہی ہے بستے کھلنا شروع ہو چکے ہیں۔
ماسٹر جی نے دائیں بائیں ادھ کھلی نظروں سے دیکھا۔ایک لمبی جمائی لی اور اپنے تقریباً گنجے سرکو کھجاتے ہوئے پہلی قطار میں بیٹھے ایک بچے کو للکارا۔
”اوئے غفورے!اٹھ اور پہلی کہانی بچوں کو پڑھا۔
“
غفوراجس کا نام والدین نے یقینا عبدالغفور رکھا تھا،اپنی پھٹی پرانی کتاب تھامے کھڑا ہوا۔ماسٹر جی نے اس سے پھر کہا”اوئے!سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا․․․․․․گوڈی کرتا رہا ہے کیا ہڈ حرام؟“
غفوراتن کر کھڑا ہو گیا اور پھیپھڑوں کو پوری طرح پھلا کر چیخا۔
”وارث کا اسکول․․․․․․یہ وارث کا اسکول ہے۔“
”اس میں آٹھ کمرے ہیں،اس میں کھیلنے کے لیے ایک بہت بڑا میدان ہے ،پینے کا پانی اور بیٹھنے کے لیے کرسیاں ہیں۔
“
عبدالغفور چیخ چیخ کر بول رہا ہے اور بچے بھی چیخ چیخ کر دہرارہے ہیں۔اچانک دوسری قطار میں کچھ ہل چل پیدا ہوئی۔ایک بچہ کا نپتا کا نپتا کھڑا ہوتا ہے ۔وہ ماسٹر جی سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔
بڑی مشکل سے اس کی زبان سے نکلا۔
”ماسٹر جی!یہ وارث کا اسکول بہت اچھا ہے جی․․․․ہمارا اسکول اچھا کیوں نہیں ؟یہاں کرسیاں ،کمرے ․․․․․“”بیٹھ اوئے․․․․․․بیٹھ رول نمبر 15تمہیں ہزار بار کہا ہے زیادہ سیانے نہ بنو․․․․․وہ وارث کا اسکول ہے۔
“اور”یہ لاوارثوں کا ․․․․․“ماسٹر جی کھسیانے ہوگئے۔
”نکالو!تختیاں ․․․․․․“ماسٹر جی ایک وقفے کے بعد پھر بولتے ہیں۔
ایک کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ تختیاں نکل آتی ہیں۔کافی دیر تک کلاس میں سناٹا رہتا ہے ۔ماسٹر جی ایک طائرانہ نگاہ کلاس پر ڈالتے ہیں اور اپنی ٹانگیں پھیلادیتے ہیں۔اب وہ نیم دراز ہیں عینک ناک کی نوک پر ہے ۔
”لکھو․․․․․․․“وہ بچوں سے کہتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ مشین کی طرح رواں ہو جاتے ہیں ۔
سیدھے الٹے حروف تختیوں پر منتقل ہورہے ہیں ۔چند منٹ خاموشی رہتی ہے ۔ایسی خاموشی کہ قلم چلنے کی آواز تک سنائی دے رہی ہے ۔یہ روز کا معمول ہے۔بچے لکھ رہے ہیں اور ماسٹر جی پوری یکسوئی کے ساتھ کرسی پر اپنی نیند پوری کررہے ہیں۔اب خاموشی ٹوٹ رہی ہے۔
ماسٹر جی کے خراٹے ابھرنے لگے ہیں۔ادھر کلاس روم میں بھی شوراٹھتاہے۔
”ماسٹر جی!اکرم نقل کررہا ہے جی“
”ماسٹر جی !اسلم نے دوات توڑ دی ہے جی“
”ماسٹر جی !ماسٹر جی !کرامت بریکیں لگاتا ہے جی۔“
”ماسٹر جی!پانی پینا ہے جی۔“
”ماسٹر جی!‘ماسٹر جی ․․․․․ی ․․․․․․ی․․․․․․ی“
”بند کرواپنی تھوتھنیاں “ماسٹر جی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔
”ادھر آ․․․․․․․ادھر آتو رول نمبر 13․․․․․تو بہت شرارتی ہے ․․․․․․پکڑو ،کان ․․․․․“
ماسٹر جی رول نمبر 13کو مرغا بنا دیتے ہیں اور لاٹھی اس ننھی سی جان پر برسا دیتے ہیں جس نے شاید ہی شور کیا ہو،لیکن ماسٹر جی دوسرے بچوں پر رعب ڈالنے کے لیے کسی ایک کی مرمت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔مرمت بھی ایسے جیسے بوری سے گرد جھاڑ تے ہیں۔
”اوئے اسلم کے بچے!اٹھ اور پہاڑے پڑھا۔“ماسٹر جی ایک اور طالب علم کو حکم سناتے ہیں۔اسلم اپنی قمیض کے بازوسے ناک صاف کرتے ہوئے اٹھتا ہے ۔ایک نظر رول نمبر 13پر ڈالتا ہے اور پھر چیخ اٹھتا ہے۔
”اک دونی دو ،دودونی چار۔“
جس زور سے اسلم پڑھتا ہے ،اس سے دوگنی آواز سے بچے پڑھتے ہیں ۔اسی دوران تھکاوٹ سے چور چور ماسٹر جی پھر گہری نیند میں جا پہنچے ہیں۔
اسلم رٹے رٹائے پہاڑے پڑھا کر بیٹھ چکا ہے ․․․․․اب کلاس میں شور نہیں ۔رول نمبر13کی جو درگت بنی تھی اس نے سب کو چپ رہنے پر مجبور کردیا ہے ۔جسے کلاس کو سانپ سونگھ گیا ہو۔
”ماسٹرجی نصیب اللہ مکامارتا ہے جی“اچانک زور دار آواز بلند ہوتی ہے۔
”کون مارتا ہے ؟․․․․․․کون مارتا ہے ؟“ماسٹر جی ہڑ بڑا کر اٹھتے ہیں جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔
انہوں نے ایک لمبی جمائی لیتے ہوئے سکون سے پر گردن ٹیک دی چند لمحے بعد تھوڑا سیدھے ہو کر بیٹھے اور ترچھی آنکھوں سے کلاس کو دیکھا۔
”اوئے کیا نام ہے تمہارا․․․․․․فضل داد کے بیٹے۔“ماسٹر جی ایک لڑکے کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
”اختر علی ہے جی میرا نام ۔“بچہ ڈرتے ڈرتے کھڑا ہو تا ہے۔
”ادھر آؤ۔“وہ سہما ہوا قریب آتا ہے۔
”جاؤ باہر ․․․․․رفیق پردیسی کاہوٹل ہے ناں۔“
”جی ہے جی “اختر کی جان میں جان آتی ہے۔
”وہاں سے دوکپ چائے لے آؤ۔“
لڑکا جانے لگتا ہے تو ماسٹر جی پکارتے ہیں۔
”سنواوئے․․․․․․اوئے فضل داد کے لڑکے ․․․․․․کیا نام ہے تمہارا ․․․․․․چینی کم ،پتی تیز․․․․․اسے کہنا دو چار جلیبیاں بھی دے دے․․․․․․اور سنو!راستے میں جلیبیاں چاٹنی نہیں ․․․․․․سن لیا تم نے ․․․․․․․“جی سن لیا جی“اختر یہ کہتا ہوا باہرنکل جاتا ہے ۔
اب ماسٹر جی کلاس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
”اوئے خلیل صاحب کے بچے!کیا نام ہے․․․․․․ہاں رول نمبر 18ادھر آؤ․․․․․․لڑکا ہانپتا کانپتا ماسٹر جی کی کرسی کے پاس آتا ہے۔
”وہ کدھر ہے میری چیز جوکل مانگی تھی۔“ماسٹر جی للکارے۔
”وہ جی․․․․․․ماں کہہ رہی تھی کہ کل مرغی نے انڈہ دیا ہی نہیں جی مرغی کچھ بیمار ہو گئی ہے جی․․․․․“
”مرغی کے بچے!اسے ٹیکہ لگوالیتے ناں․․․․․․جاؤ چھٹی کرو اور مرغی کو ٹیکہ لگواؤ․․․․پرسوں انڈے ضرور لے کر آنا۔
“
”ٹھیک ہے جی “اور رول نمبر 18بستہ اٹھا کر مرغی کے علاج کے لیے چلاجاتا ہے ۔اس کے چہرے سے یوں لگ رہا ہے جیسے اس نے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔
”نکالواردو کی کتاب “ماسٹر جی نے انگڑائی لیتے ہوئے ڈنڈازمین پر پٹخا۔
”حروف کیسے جڑتے ہیں۔“
”پڑھیں․․․․․بک․․․․․․ر․․․․․ی․․․․․․․بکری۔“
بچے بھی پڑھتے ہیں․․․․․․بک․․․․․․ر․․․․․ی․․․․․․․بکری۔
“
”بے الف با․․․․․․․بے الف با․․․․․․بابا․․․․․الف مدآ․․․․․․․باباآ․․․․․․․چے الف چا،چے الف چا․․․چاچا․․․“
ماسٹر جی چند جملے ہی پڑھا پائے تھے کہ چائے اور جلیبیوں کی مہک نے انہیں وقفہ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ان کے منھ میں پانی بھر آیا،چنانچہ باقی پڑھائی انہوں نے رول نمبر گیارہ کے ذمے کرتے ہوئے چیخ کر کہا”اوئے سیدھے بیٹھو“اور بچے بوری کے ٹکڑوں پر کھسکنے لگے۔
بچے حسرت بھری نظروں سے ماسٹر جی کو دیکھ رہے ہیں جو جلیبیاں منہ میں ٹھونسے چائے کے چسکیاں لے رہے ہیں چائے ختم کرنے کے بعد ایک لمبی ڈکاران کے حلق سے نکلی ”ہب ہب ہب ․․․․․آ ․․․․․آ“
وہ ڈکارلیتے جارہے ہیں اور سگڑیٹ کا دھواں ان کے نتھنوں سے ابل رہا ہے۔
ابھی کئی ڈکاریں اور سگریٹ کا دھواں نکلنا باقی ہے کہ چھٹی کی گھنٹی بج اٹھتی ہے ۔ماسٹر جی اپنا جسم کرسی سے بہ مشکل اٹھاتے ہیں،تھکے ہارے یوں کلاس سے رخصت ہوتے ہیں جیسے گزشتہ آنے والی سات انسانی نسلوں پر احسان کردیا ہو․․․․․”ٹن ٹن ٹن“
(اس کے ساتھ ہی تیزی سے پردہ گرتا ہے ۔یاد رہے کہ اس باریہ پردہ حکمرانوں کی عقل پر گرتاہے)