ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک مینڈک اور ایک چوہا بہت اچھے دوست تھے۔چوہا جنگل کے درمیان میں ایک درخت کے سوراخ میں رہتا اور مینڈک کا بسیرا جنگل کی اگلی طرف پائے جانے والے تالاب میں تھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک مینڈک اور ایک چوہا بہت اچھے دوست تھے۔چوہا جنگل کے درمیان میں ایک درخت کے سوراخ میں رہتا اور مینڈک کا بسیرا جنگل کی اگلی طرف پائے جانے والے تالاب میں تھا۔گھر دور ہونے کے باوجود بھی دونوں ہمیشہ ایک ساتھ پائے جاتے تھے۔دونوں کی دوستی اتنی گہری تھی کہ پورے جنگل میں ایسا کوئی نہ تھا جس نے انہیں کبھی ایک دوسرے کے بغیر دیکھا ہو۔
دونوں جہاں جاتے ،ساتھ جاتے۔جو بھی کھاتے،ساتھ کھاتے۔اپنی ہر چیز ،ہر خوشی ساتھ بانٹتے اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مصیبت کے وقت کام آتے۔ہر کوئی اُن کی اس بے مثال دوستی سے متاثر تھا۔پورے جنگل میں اخوت وبھائی چارے کی مثال مینڈک اور چوہے کی دوستی کی دی جانے لگی۔دونوں کی دوستی کے قصے رات کو سنائے جانے لگے۔
مینڈک اور چوہا اپنی دوستی کی اس مقبولیت کو سن کر نہایت خوش ہوئے، کچھ وقت سوچنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچے کہ اُنہیں اتنی شہرت اپنی دوستی کی بنا پہ ملی ہے لہٰذا ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔
وقت گزرتا گیا لیکن مینڈک اور چوہے کی دوستی میں کمی نہ آئی۔مینڈک معمول کے مطابق ،صبح سویرے اپنے تالاب سے نکل کر چوہے کے گھر کی جانب سفر کا آغاز کرتا،کوئی آدھ گھنٹے بعد چوہے کے بل تک پہنچتا اور چوہے کو پہلے ہی اپنا انتظار کرتے پاتا۔اس کے بعد دونوں پورا دن جنگل میں گھومتے پھرتے رہتے اور شام کو اپنے اپنے گھروں کی جانب نکل پڑتے۔
ایک شام ،تالاب کے قریب مینڈک کو ایک اُلّو کی آواز آئی ۔مینڈک نے اوپر دیکھا تو اُلّو کو درخت کی ٹہنی پہ بیٹھے پایا۔
”مینڈک میاں کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہو؟“مینڈک نے اُلّو کے اس سوال پہ حیرانی ظاہر کی تو اُلّو ایک بار پھر بولا:
”کتنے بھولے ہو تم میاں۔تمہارا دوست چوہا اتنا چالاک ہے تمہیں معلوم ہی نہیں۔کافی عرصے سے دیکھ رہا ہوں،تم روز صبح سے لے کر شام گئے تک چوہے کی دُم لئے پھرتے ہو اور مجال ہے جو میں نے کبھی اُسے تمہارے تالاب آتے دیکھا ہو۔
“
پہلے تو مینڈک یہ بات سن کر بوکھلا سا گیا۔کچھ دیر بعد جب بات کا معنی سمجھ میں آیا تو ہچکچاتے ہوئے اُلّو سے کہا،’یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں،اور نہ کبھی سوچنے کا موقع ملا ۔چوہا پورے جنگل میں سے سب سے وفادار دوست ہے میرا ،یہ بات معنی نہیں رکھتی۔“
”جو مرضی کہو میاں،میں نے جو دیکھا سوبول دیا۔اب آگے اس بات کو سمجھنا نہ سمجھنا تمہارا کام ہے۔
“اُلّو یہ کہہ کے درخت کی ٹہنی سے اُڑ گیا۔
اُس رات مینڈک کو اُلّو کی بات سن کہ نیند ہی نہ آئی۔حقیقت کو جانچنے کے بعد نیند کا تو جیسے نام ونشان مٹ گیا ہو۔
”جو بھی ہو،اُلّو کی بات میں دم تو ہے،اُس نے سچ ہی کہاہے۔ہمیشہ سے میں ہی چوہے کے پاس جاتا ہوں اُس کو بل سے لینے ۔وہ میرے تالاب تک کبھی نہیں آیا۔پتہ نہیں کیسا دوست ہے جس نے آج تک میرا گھر ہی نہیں دیکھا۔
دن گزرتے گئے اور مینڈک کے دل میں اس کا احساس بڑھتا گیا۔اُس نے بہانے بہانے سے کافی مرتبہ چوہے کو اپنے تالاب کی طرف لانا چاہا مگر چوہا نہیں مانا۔وقت کے ساتھ صورتحال نہ بدلی لیکن مینڈک کا دل بدل چکا تھا۔اب مینڈک اُس کا دوست نہیں بلکہ دل میں اس کے بغض رکھ کر سوچتا تھا۔ایک دن مینڈک کو اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے ایک ترغیب سوجھی ۔
اگلے دن مینڈک چوہے کو لے کر جنگل کی سیر کو نکل پڑا۔انجان چوہے کو معلوم ہی نہ تھا کہ مینڈک نے تار کا ایک سرا اپنی ٹانگ پہ باندھا اور دوسرے سرے کو چوہے کی دُم کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔جب علیحدہ ہونے کا وقت آیا تو مینڈک تالاب کی جانب پھلانگا اور چوہے کو بھی تار کی وجہ سے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے گیا۔پہلے توچوہے کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ،جب اُس کے پوچھنے اور اس رویے کے اعتراز پہ مینڈک نے کوئی جواب نہ دیا تو چوہے نے اپنے تیزدانتوں کی مدد سے تار کاٹنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کہ سوا کچھ ہاتھ نہ آیا ۔
آدھے گھنٹے تک مینڈک چوہے کو یونہی گھسیٹتا رہا اور بلا آخر تالاب پہنچنے پہ بولا،’ہماری دوستی کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تم میرے تالاب میں ایک بھی مرتبہ نہیں آئے۔آج میں تمہیں اپنے تالاب میں لے کے ہی جاؤں گا۔“
چوہے کے جواب کا انتظار کیے بغیر مینڈک نے یہ کہہ کے تالاب میں چھالانگ لگا دی ۔چوہے نے خود کو آزاد کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں کر سکا اور جلد ہی ڈوب گیا۔
چوہے کی باڈی دوبنے کے بعد تالاب کی سطح پہ تیرنے لگی جبکہ مینڈک نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر اس کی طرف نہ دیکھا۔اس حادثے کے چند سیکنڈ بعد ہی آسمان پہ اُڑتے ایک باز کی نظر چوہے پہ پڑی اور وہ چوہے کی جانب تیزی سے نیچے آیا،بے جان چوہے کو اپنے پنجوں میں دبایا اور اپنے گھونسلے کی طرف اُڑ پڑا۔چوہے کی پونچھ پہ بندھی تار کے باعث مینڈک بھی نہ بچ سکا اور تالاب سے آسمان کی سمت تار سے لٹکتا ہوا باز کے گھونسلے میں جا گرا۔
گھونسلے میں پہنچ کر جب باز نے چوہے کے ساتھ مینڈک کو دیکھا تو نہایت خوش ہوا اور بولا،واہ ،واہ۔آج تو میں پیٹ بھر کر کھاؤں گا۔مینڈک نے باز سے اپنی جان کی بھیک مانگی لیکن باز نہ مانا اور اس طرح مینڈک میاں اپنے مردہ دوست کیساتھ باز کی خوراک بن کہ رہ گیا۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے:”اپنے دشمن کے لیے اتنا گہرا کھڈامت کھود وکہ اُس میں خود ہی گرجاؤ۔“