جو آپ کے پاس ہے اُسے کوئی نہیں چھین سکتا۔تو بہتر یہ ہی ہے کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوں ناکہ ان سے جلیں اور گمان کرنے لگیں کہ اُس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے جو کہ سراسر غلط امر ہے۔حاسد کو پچھتاوے کا سامنا کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
فیضان پرائمری سکول سے ہی کرکٹ کی بدولت جانا جاتا تھا اور سب کو ہی اُس پر قدرے فخر تھا کہ وہ اتنی چھوٹی عمر سے ہی بہت اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے۔پڑھائی میں بھی اے گریڈ لیتا ہے۔آٹھویں جماعت میں فیضان کی کلاس میں ایک بچے نے داخلہ لیا جس کا نام ولید تھا۔ولید اور فیضان کی شروع شروع میں بالکل نہ بنتی تھی۔
فیضان اپنی اچھی پرفارمنس کے باعث کسی کو بھی آسانی سے گھاس نہ ڈالتا تھا۔چھ مہینے ہونے کو آئے تو مڈٹرم شروع ہو گئے۔فیضان کرکٹ کی وجہ سے پڑھائی پر توجہ مرکوز نہ کر پایا اور اس بار فیضان نے کلاس میں دوسری اور ولید نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ولید کو اساتذہ کی جانب سے سراہا جانا فیضان کو ایک آنکھ نہ بھایا۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی میرے سے آگے کیسے نکل سکتا ہے اور مجھ سے زیادہ میرے اساتذہ ولید کو کیسے سراہ سکتے ہیں۔
یہ سب باتیں فیضان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھیں۔جب وہ کرکٹ اکیڈمی میں بیٹنگ کی پریکٹس کر رہا تھا،کوچ نے فیضان کے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے اُس کی پریکٹس کو روک دیا اور وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی مگر فیضان نے ”نو سر آئی ایم اوکے“ کہہ کر بات کو وہیں ختم کر دیا۔فیضان نے کوچ سے پریکٹس ختم کرنے کی اجازت چاہی تو کوچ نے اُسے آرام کرنے اور تازہ دم ہونے کا کہا۔
دو سال گزرنے کے بعد فیضان اب دسویں کلاس کا طالب علم تھا اور ولید نے بھی کوچ کے اسرار پر کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی۔اُس کی ملاقات کوچ سے محلے کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے کے دوران ہوئی۔کوچ نے ولید کو کرکٹ اکیڈمی میں داخلہ لینے کو کہا اور بتایا کہ ہمارا ایک اور اچھا کھلاڑی ہے جو تمہاری ٹکر کا ہے،اُس نے ہماری کرکٹ اکیڈمی کا نام روشن کرکے رکھا ہے۔
اُسے کرکٹ کھیلتے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور جنون کی حد تک وہ کرکٹ کھیلنے کا شوقین اور دلدادہ ہے۔تم نے اس سے پہلے کرکٹ کب کھیلنا شروع کی۔
سر!بس!بس یوں ہی فری ٹائم میں دوستوں کے ساتھ آ جاتا ہوں کھیلنے مگر کرکٹ میں کیریئر بنانے کے حوالے سے کبھی نہیں سوچا۔
تو میں دے رہا ہوں نہ تمہیں موقع تم آنا اس اکیڈمی کو وزٹ کرنا تم پہ کوئی پریشر نہیں ہے۔
اگر تمہارا دل چاہے تو خوشی کے ساتھ اکیڈمی جوائن کرو اور اپنے ہنر کو نکھارو۔
فیضان منگل کے روز جب اکیڈمی پریکٹس کرنے آیا تو اس نے دیکھا کہ کوچ اُس کی پریکٹس کی ٹائمنگ میں کسی اور کو پریکٹس کروا رہے ہیں۔فیضان حیران ہوا اور کوچ کی جانب بڑھنے لگا۔فیضان نے کوچ کے عقب میں دیکھا تو اُس پر لرزہ طاری ہو گیا اور غصے سے لال پیلا ہو گیا۔
کوچ میری پریکٹس کا وقت شروع ہو چکا ہے آپ میری ٹائمنگ میں کسی دوسرے کو کیسے پریکٹس کروا سکتے ہیں۔
فیضان!کوچ نے تھوڑی اونچی آواز میں کہا تم کیوں اس طرح کا رویہ اختیار کر رہے ہو وہ بھی کسی کو ملے بغیر اور اُسے جانے بغیر مجھے لگا کہ ولید سے مل کر تمہیں زیادہ خوشی ہو گی اور پریکٹس کرنے میں دُگنا مزہ آئے گا۔بالآخر تمہاری ٹکر کا بھی اس اکیڈمی میں کوئی آیا۔
فیضان نے کوچ کی ایک نہ سنی اور وہاں سے چلا گیا۔ولید نے کوچ سے معذرت کی اور کہا کہ سر آپ مجھے اجازت دیں،میں کسی دوسری اکیڈمی میں داخلہ لے لوں گا۔مجھے نہیں لگتا کہ میرا یہاں رُکنا مناسب ہو گا۔کوچ نے ولید سے کہا کہ تم کہیں نہیں جاؤ گے،تم یہیں اسی اکیڈمی میں پریکٹس کرو گے اور ڈسٹرکٹ لیول میں حصہ لے کر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرو گے۔
ولید اور فیضان ایک ہی ٹیم میں بیک وقت پریکٹس کیلئے آتے،ولید کی کارکردگی فیضان سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔پہلے سکول اور اب اکیڈمی میں بھی آخر کیوں یہ میری جان نہیں چھوڑ رہا کیوں میرا پیچھا کر رہا ہے۔بریک میں فیضان نے بلاوجہ ولید کو مارنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ یہ ایک بڑے جھگڑے کی شکل اختیار کر گئی۔کوچ نے دو جانب سے واقعے کی تحقیقات کرائیں اور فیضان کو تین مہینے کیلئے اکیڈمی سے نکال دیا۔
ولید نے ڈسٹرکٹ لیول پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اکیڈمی کا نام فخر سے بلند کیا۔
سبق:
جو آپ کے پاس ہے اُسے کوئی نہیں چھین سکتا۔تو بہتر یہ ہی ہے کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوں ناکہ ان سے جلیں اور گمان کرنے لگیں کہ اُس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے جو کہ سراسر غلط امر ہے۔حاسد کو پچھتاوے کا سامنا کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔